اے رھبرانِ ملت و قوم
اس دیس کے دھارے دیکھتے ییں
سب درد کے مارے پوچھتے ہیں

کیا اب بھی تم کو یاد ہیں دن جب لٹ کے لوگ یاں آتے تھے
آزاد فضا کی آس میں سب وہ اپنا سوگ مناتے تھے

کیا تم کو صدائیں یاد نہیں اٹھتی تھیں جو ہر زینے پر
وہ بوڑھے بچے مرد جواں قرباں ہوئے پاک نگینے پر

پھر تم نے کیا تھا عہدِ وفا اپنے سب پاک شہیدوں سے
بھائیوں کے سینے چاک کئے ، کھیلے تم سب امیدوں سے

میں بلوچ پٹھان تو پنجابی‘ بنگلہ سندھی کو کاٹ دیا
تفریق کو تم نے ھوا دے کر میری مٹی کو یوں بانٹ دیا

 کبھی آزادی کے نام پہ سب یہ خواب سہانے بیچے ہیں
کبھی آڑ بھی مذہب کی لے کر لباس جسم سے کھینچے ہیں

کیا نالے ان کے یاد نہیں سہاگ جنہوں نے گنوائے تھے
بہنوں کی آہیں بھول گئےسب ویر جنہوں نے لٹائے تھے

 راشد کی وفائیں بھول گئے بھٹی کا مقصد یاد نہیں
جو کمزورں کی چیخ سنے تم وہ قاسم زیاد نہیں

اپنے شہروں میں آگ لگا تم نے سب کو محصور کیا
خاموشی سے معصوموں کو پھر مرنے پر مجبور کیا

 سب خوابوں کو سب وعدوں کو تبدیل کیا ہے رونے میں
ہے اپنے لئے پھر بیچ دیا اس دیس کو چاندی سونے میں

ہیں صرف اناؤں کی خاطر کتنے دل پھر ناشاد کئے
اپنے اک آج کی خاطر پھر، کل کتنوں کے برباد کئے

مجرم بھی تم منصف بھی تم ، کیا تم سے کہیں انصاف کرو
بس وطن کی ایک گذار سنو ، اس قوم کو اب تم معاف کرو

یہ دنیا خوبصورت ہے“ سے ”

– from ” Yeh Dunya Khubsoorat HaiCopyrights Reserved