آج بھی یاد ہر اک بات تیری آتی ہے
انہی یادوں سے پیچھا چھڑانے کے لئے
اپنے بے رنگ خیالوں کو ہٹانے کے لئے
ایک تصویر تصور میں بنا ڈالی ہے
اسی تصویر کو کاغذ پہ سجانے کے لئے
زندگی سے میں کئی رنگ چرا لایا ہوں
سرو قامت کہ پیکر کے استعارے کو
بہار کی وہ رعنائی اداؤں کے لئے
پلکوں کے جھروکوں سے تکنے کے لئے
دو معصوم سی بے چین غزالی آنکھیں
کلام کرتے بے تاب سے ہونٹوں کے لئے
سرخ گلاب میں ڈالی سے توڑ لایا ہوں
اس کے چہرے کو حسیں اور بنانے کے لئے
مانگ کے چاند سے بےداغ نور لایا ہوں
پیارے شانوں پہ بکھری ہوئی ذلفوں کے لئے
سیاہ رات کا سب رنگ نچوڑ لایا ہوں
ہاتھ چلتے رہے تصویر بھی بنتی ہی رہی
میں نے چاہا تو نہ تھا مگر انجانے میں
تیری تصویر پھر اک بار بنا ڈالی ہے

کھو نہ جانا ” سے “

– fromKho na JanaCopyrights Reserved